اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ155۔156
91۔ ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہؤا
ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہؤا
وہ جا چکا تو شہر میں محشر بپا ہؤا
جاناں کا اس طرح سے ہے چہرہ جلا ہؤا
جس طرح ہو گلاب پہ کندن مَلا ہؤا
گل چیں اداس، پھول پریشاں، چمن خموش
عہدِ غمِ فراق میں کس کا بھلا ہؤا
نکلا ہے آج اپنی انا کی حدود سے
ورنہ تھا اپنی سمت وہ کب کا چلا ہؤا
لہروں کے لمس سے تھے کنارے تھکے ہوئے
پانی اُتر گیا تو ذرا حوصلہ ہؤا
دریا کو پی کے اور بھی بے تاب ہو گیا
دھرتی کے درد سے تھا سمندر بھرا ہؤا
نہرِ فراتِ دیدہ و دل خشک ہو گئی
اب کے برس وہ معرکۂ کربلا ہؤا
پھر داغ ہائے دل کا نظارہ ہے دیدنی
پھر گلشنِ فراغ ہے پھولا پھلا ہؤا
دینے لگا دکھائی کنارہ وجود کا
مدّت کے بعد پیڑ نظر کا ہرا ہؤا
مٹّی میں مل کے بھی نہ کسی کام آ سکا
رستے کا روگ بن گیا پتھر پڑا ہؤا
مَیں جس کو ڈھونڈتا رہا آبادیوں کے
بیچ
وہ مسکرا رہا تھا اکیلا کھڑا ہؤا
میرا وجود اس کے تصوّر میں کھو گیا
وہ خود اگر نہ سامنے آیا تو کیا ہؤا
مضطرؔ! بڑے طویل ہیں فرقت کے فاصلے
راہی تھکا تھکا ہؤا اور دن ڈھلا ہؤا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں