اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ265
175۔ صبا
نے شکوہ کیا ہے قفس نشینوں سے
صبا
نے شکوہ کیا ہے قفس نشینوں سے
خبر
ملی نہ کوئی خط کئی مہینوں سے
گرا
نہ دیں در و دیوار کو مشینوں سے
مکان
روٹھ نہ جائیں کہیں مکینوں سے
ترا
جمال تو نظروں سے ہو گیا اوجھل
نکل
نہ جائے تری آرزو بھی سینوں سے
دل
و نگاہ نے ہر گام پر دیے دھوکے
کسی
نے فیض نہ پایا کبھی کمینوں سے
شبِ
ستائشِ باہم ہے، ہوشیار رہو
نکل
نہ آئیں کہیں سانپ آستینوں سے
مقامِ
حسن کی تعیین ہونے والی ہے
حسین
ملنے کو آئیں گے اب حسینوں سے
فرازِ
دار پہ سب فرق مٹ گئے مضطرؔ!
فلک
نشین ملے بوریا نشینوں سے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں