اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ205۔206
131۔ یہ اک اور قیامت ڈھائی لوگوں نے
یہ اک اور قیامت ڈھائی لوگوں نے
یار سے جا کر چغلی کھائی لوگوں نے
تیرے نام کی دے کے دُہائی لوگوں نے
بستی بستی آگ لگائی لوگوں نے
جیتے جی مرنے کے لیے بے چین رہے
مر کے بھی تسکین نہ پائی لوگوں نے
لین دین کے صاف ،گرہ کے پورے ہیں
ایک سنی تو لاکھ سنائی لوگوں نے
اپنوں کے گاہک بھی ہیں، بیوپاری بھی
بیچ دیا یوسف سا بھائی لوگوں نے
ہجر کی رُت میں اشک بہائے، نیر ِپیے
یونہی آگ سے آگ بجھائی لوگوں نے
ایک ہی دن میں رو رو کر بے حال ہوئے
کب دیکھی تھی ایسی جدائی لوگوں نے
چہرے نوچ کے پھینک دیے آوازوں کے
لفظوں کی دیوار گرائی لوگوں نے
کرنے کو تو ایک اشارہ کافی تھا
ناحق شور کیا سودائی لوگوں نے
اپنے بیگانے سب آئے ملنے کو
چھین لی مضطرؔ کی تنہائی لوگوں نے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں