اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ177
110۔ دل کی منزل بھی سر نہ ہو جائے
دل کی منزل بھی سر نہ ہو جائے
بے صدا گھر کا گھر نہ ہو جائے
میری فریاد کو نہ غور سے سن
تیرے دل پر اثر نہ ہو جائے
پھر کوئی آ رہا ہے جانبِ دل
کہیں دل کو خبر نہ ہو جائے
شبِ فرقت! ہو تیری عمر دراز
تُو کہیں مختصر نہ ہو جائے
غمِ دُنیا بھی خوب ہے پیارے!
اس کی عادت اگر نہ ہو جائے
حسن کی شان میں کوئی تقصیر
تجھ سے اے بے نظر! نہ ہو جائے
شبِ غم کے قرار! آ جاؤ
آ بھی جاؤ، سحر نہ ہو جائے
تھام لے اب زبان کو مضطرؔ!
گفتگو بے اثر نہ ہو جائے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں