اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ288
193۔ چاہنے
والوں کو ڈسنے والا
چاہنے
والوں کو ڈسنے والا
آ
گیا ابر برسنے والا
کتنا
مرعوب ہے سنّاٹے سے
میری
آواز پہ ہنسنے والا
بن
گیا آپ ہی اپنی زنجیر
میری
زنجیر کو کسنے والا
بانٹتا
پھرتا ہے دریاؤں کو
قطرے
قطرے کو ترسنے والا
تنگ
آ جائے گا ہنستے ہنستے
کبھی
روئے گا یہ ہنسنے والا
اب
گرجتے ہوئے گھبراتا ہے
راہ
چلتوں پہ برسنے والا
اس
کو پرواز کا فن آتا ہے
یہ
پرندہ نہیں پھنسنے والا
بس
گرجتا ہی چلا جاتا ہے
یہ
نہیں ابر برسنے والا
سامنے
کیوں نہیں آتا کھل کر
جسم
اور جان میں بسنے والا
کس
قدر دور ہے مجھ سے مضطرؔ!
میرے
ہمسائے میں بسنے والا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں