اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ303
205۔ حدِّ
نظر سے دور اُفق پار دیکھنا
حدِّ
نظر سے دور اُفق پار دیکھنا
آواز
کس نے دی ہے مرے یار! دیکھنا
اک
بے وطن ہے درد سے لاچار دیکھنا
تُو
بھی چمن میں نرگسِ بیمار دیکھنا
اک
اور شام جیسے مکدّر سی ہو گئی
اک
مرحلہ تھا پرسشِ غم خوار دیکھنا
ہر
جرأتِ سوال پہ پیشِ حضورِ دوست
حیرت
سے اپنے آپ کو ہر بار دیکھنا
جی
چاہتا ہے دیکھنا ان کو قریب سے
اور
ان کا مسکرا کے مرے پار دیکھنا
مضطرؔ
کو اپنی ہیچ مدانی پہ ناز ہے
اِترا
رہا ہے بر سرِ بازار دیکھنا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں