صفحات

اتوار، 7 اگست، 2016

206۔ یہ کون سرِ غارِ حرا بول رہا ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ304

206۔ یہ کون سرِ غارِ حرا بول رہا ہے


یہ کون سرِ غارِ حرا بول رہا ہے
لگتا ہے کہ خود آپ خدا بول رہا ہے

ہو جائے نہ صحرا سے کہیں اس کی لڑائی
صحرا میں اکیلا جو کھڑا بول رہا ہے

واللّٰہ کہ یہ میم فقط میم نہیں ہے
اس میم کے پردے میں خدا بول رہا ہے

آواز تو آئی ہے اَنَاالْحَقْ کی کہیں سے
کوئی تو سرِ کرب و بلا بول رہا ہے

کملی کے چھپانے سے کبھی چھپ نہ سکے گا
رُخ پر جو ترے رنگِ حیا بول رہا ہے

ہے فرش سے تا عرش چکا چوند کا عالَم
کس شوخ کا نقشِ کفِ پا بول رہا ہے

کچھ منہ سے توکہنے کی ضرورت نہیں اے دل!
آنسو بھی تو ہنگامِ دُعا بول رہا ہے

تاثیر نے حل کر دیے آواز کے عقدے
جو لفظ کبھی بولا نہ تھا بول رہا ہے

مضطرؔ کو بھی لے جانا سرِ کوئے ملامت
یہ شوخ بھی امسال بڑا بول رہا ہے

(قدیم)

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں