اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ295
197۔ راتوں
کو اُٹھ کے آنکھ کا آبِ حیات پی
راتوں
کو اُٹھ کے آنکھ کا آبِ حیات پی
ان
خشک سالیوں میں سرِ پل صراط پی
زہرِ
غمِ حیات بھی پینے کی چیز ہے
اس
کو بھی آزما، اسے بھی آج رات پی
یہ
تحفۃ ملی ہے تجھے شہریار سے
پی
اور اس کو بر سرِ نہرِ فرات پی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں