صفحات

منگل، 9 اگست، 2016

198۔ ہو گئے ہم تو پاش پاش بہت

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ296

198۔ ہو گئے ہم تو پاش پاش بہت


ہو گئے ہم تو پاش پاش بہت
کر ہماری نہ اب تلاش بہت

اک تمھِی تم ہو کیوں زمانے میں
اور بھی تم سے ہوویں کاش! بہت

بت پرستی کی تھی روایت بھی
تم نے بت بھی لیے تراش بہت

میری کشتی کے ڈوبنے کے بعد
اس قدر بھی ہے ارتِعاش بہت

آرزو کو نہ گھور کر دیکھو
آ نہ جائے اِسے خراش بہت

عقل ہی مستقل مریض نہیں
دل بھی ہے صاحبِ فراش بہت

شہربیتی نہ پوچھیے مضطرؔ!
یہ کہانی ہے دلخراش بہت

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں