اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ297
199۔ لفظ
مر جائیں تو مفہوم بھی مر جاتے ہیں
لفظ
مر جائیں تو مفہوم بھی مر جاتے ہیں
کتنے
کاغذ کے کفن خون سے بھر جاتے ہیں
دشت
در دشت پھرا کرتے ہیں خنداں فرحاں
گھرکے
پردیس میں آتے ہیں تو ڈرجاتے ہیں
گھورتی
رہتی ہیں الفاظ کی آنکھیں ان کو
شعر
کے رُخ پہ جو نظّارے بکھر جاتے ہیں
رات
دن دار پہ تانتا سا بندھا رہتا ہے
چاہنے
والے ترے جانے کدھر جاتے ہیں
ڈر
نہ انکار کے سیلاب سے اتنا مضطرؔ!
یہ
وہ دریا ہیں جو چڑھ چڑھ کے اُتر جاتے ہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں