اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ298
200۔ کیسے
بات کروں ٹھنڈے انسانوں سے
کیسے
بات کروں ٹھنڈے انسانوں سے
خوف
آتا ہے بے آباد مکانوں سے
جاگ
رہی ہیں سُونے گھر کی تصویریں
چہرے
گھور رہے ہیں روشن دانوں سے
تنہا
آنسو کیسے بچ کر نکلے گا
پلکوں
کے ان دو رویہ دربانوں سے
تم
آئین کی لاش اُٹھائے پھرتے ہو
لوگ
حکومت کرتے ہیں فرمانوں سے
کوہِ
ندا کے بن باسی بھی بولیں گے
آخر
شور اٹھے گا بند مکانوں سے
دانش
مندو! اس کا استقبال کرو
یہ
جھونکا جو آیا ہے ویرانوں سے
آخر
پتھر پگھلا ضبطِ تکلّم سے
مضطرؔ!
کشتی بچ نکلی طوفانوں سے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں