اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ287
192۔ گرنے
کو ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا
گرنے
کو ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا
سر
ہے نہ سائبان، مگر تم کو اس سے کیا
اس
شہرِ بے امان کے شعلوں کے درمیاں
میرا
بھی ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا
انسان
ہوں مَیں اور مرے سینے میں دل بھی ہے
منہ
میں بھی ہے زبان، مگر تم کو اس سے کیا
وہ
بھی تھا امتحان سرِ دشتِ نینوا
یہ
بھی ہے امتحان، مگر تم کو اس سے کیا
کیا
جانتے ہو کس نے اجاڑا بہشت کو
تم
ہی نے میری جان! مگر تم کو اس سے کیا
کرتب
تمھارے دیکھ کے حیرت میں ہے زمیں
ششدر
ہے آسمان، مگر تم کو اس سے کیا
اب
ڈھونڈتے پھرو ہو عبث اپنے آپ کو
ہے
جان نہ جہان، مگر تم کو اس سے کیا
جاگو
کہ رات ختم ہوئی، صبح ہو چکی
ہونے
کو ہے اذان، مگر تم کو اس سے کیا
مضطرؔ
تمھارے سائے سے بچ کر نکل گیا
اللّٰہ
کی ہے شان، مگر تم کو اس سے کیا
مئی،١٩٩٥
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں