اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ285۔286
191۔ جس
نے دیکھا اسے، دیکھتا رہ گیا
جس
نے دیکھا اسے، دیکھتا رہ گیا
دیکھ
کر اس کو پھر اور کیا رہ گیا
لوگ
آئے، رکے اور چلے بھی گئے
مَیں
جہاں تھا کھڑے کا کھڑا رہ گیا
ہاتھ
جب بھی اُٹھائے دُعا کے لیے
ایک
مَیں، ایک میرا خدا رہ گیا
مٹ
گیا نقطۂ مرکزی کا نشاں
ایک
موہوم سا دائرہ رہ گیا
یوں
تو شہ رگ سے بھی وہ قریب آ گئے
پھر
بھی کچھ درمیاں فاصلہ رہ گیا
مسکرائے
تو تھے وہ مری بات پر
کچھ
بھرم تو مری بات کا رہ گیا
چاند
نکلا تو چھوٹے بڑے ہو گئے
نہ
رہے،وہ جو تھے،جو نہ تھا رہ گیا
دوستی
نہ سہی، دشمنی ہی سہی
کوئی
تو باہمی واسطہ رہ گیا
اور
پھر یوں ہؤا دیکھتے دیکھتے
شکل
گم ہو گئی، آئنہ رہ گیا
یوں
سمجھ لیجیے گا کہ مضطرؔ نہیں
راہ
میں ایک پتھر پڑا رہ گیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں