صفحات

پیر، 8 اگست، 2016

202۔ ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ300

202۔ ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں


ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں
دور رہ کر بھی تجھ سے دور نہیں

تیرے غم سے نڈھال ہیں ورنہ
زندگی کا کسے شعور نہیں

میری آنکھیں گناہگار سہی
تیرے جلوے بھی بے قصور نہیں

ہنس رہے ہیں چمن کی حالت پر
پھول کمسِن ہیں بے شعور نہیں

جس سے پوچھو وہی فرشتہ ہے
آدمی کوئی دور دور نہیں

گل و گلشن اداس ہیں مضطرؔ!
چشمِ نرگس میں جیسے نور نہیں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں