صفحات

جمعرات، 18 اگست، 2016

154۔ تُو کہیں اس سے ڈر رہا تو نہیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ234

154۔ تُو کہیں اس سے ڈر رہا تو نہیں


تُو کہیں اس سے ڈر رہا تو نہیں
واعظِ شہر ہے، خدا تو نہیں

ایک ہی خاندان کے ہیں فرد
آئنہ آنکھ سے جدا تو نہیں

اپنی مرضی سے بات کرتا ہے
اشک ہر وقت بولتا تو نہیں

جی میں جو آئے کر گزرتا ہے
دلِ نادان سوچتا تو نہیں

اس بُرے سے بھی کوئی بات کرو
یہ بُرا اِس قدر بُرا تو نہیں

اس سے آگے ہے وقت کی سرحد
اس سے آگے کوئی گیا تو نہیں

یہ عنایت ہے آپ کی، ورنہ
ذکر اس میں ہمارا تھا تو نہیں

عیب ہیں مجھ میں سینکڑوں مضطرؔ!
آدمی ہوں مَیں دیوتا تو نہیں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں