اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ351۔352
235۔ مجھ کو بھی شفق شمار کر لے
مجھ کو بھی شفق شمار کر لے
سورج مجھے ہم کنار کر لے
منصور ہوں آخری صدی کا
سولی مرا انتظار کر لے
صحرا کے سکوت سے نہ گھبرا
جو نام بھی لے پکار کر لے
یہ خاک اور خون کا سمندر
دن ڈھلنے سے پہلے پار کر لے
شاید کوئی اس طرف سے گزرے
دیوار کو سایہ دار کر لے
اتنا بھی بڑھا نہ داستاں کو
سچّی ہے تو اختصار کر لے
آواز کو چھوڑ دے یہیں پر
لفظوں کی خلیج پار کر لے
اتنا بھی برس نہ اپنے اندر
اشکوں کو نہ آبشار کر لے
تصویر کو دیکھ کر سنبھل جا
آئینے کا اعتبار کر لے
ہے جرمِ عظیم اگر محبت
یہ جرم بھی میرے یار! کر لے
خوشبو کو ہے اختیار مضطرؔ!
جو رنگ بھی اختیار کر لے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں