صفحات

پیر، 1 اگست، 2016

239۔ کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ357

239۔ کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا


کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا
مَیں مسکرا رہا تھا، یہ میرا اصول تھا

عہدِ غمِ فراق میں اوجِ صلیب پر
پتھرجو تیرےؐ نام پہ کھایا تھا پھول تھا

آیا تھا میری دنیا و دیں کو سنوارنے
آنسو جو تیری یاد میں ٹپکا رسول تھا

مجھ کو تھی تیرےؐ نام کی غیرت کہ پھر مجھے
تحفہ جو گالیوں کا ملا تھا قبول تھا

دامن کے داغ دُھل گئے تھے ایک بوند سے
آنسو نہیں تھا ابرِ کرم کا نزول تھا

اس کو یہ زعم تھا کہ وہ میرِ سپاہ ہے
مجھ کو یہ فخر مَیں ترے پاؤں کی دھول تھا

اس کو تھا اقتدار کا نشّہ چڑھا ہؤا
اس کا اصول یہ تھا کہ وہ بے اصول تھا

اب تیرے بعد تیرا حوالہ دیے بغیر
جو حرف بھی زبان پہ آیا فضول تھا

تھا شعر و شاعری سے نہ مضطرؔ کا واسطہ
مقصود اس کا تیری رضا کا حصول تھا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں