صفحات

پیر، 1 اگست، 2016

240۔ یہ سفر بھی دور کا ہے ،یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ358

240۔ یہ سفر بھی دور کا ہے ،یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا


یہ سفر بھی دور کا ہے ،یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا
مرے ساتھ کیا چلے گا مرے ساتھ چلنے والا

کبھی یہ تو سوچ لیتے کہ بزعمِ اکثر یت
جسے کاٹنے چلے ہو وہ شجر ہے پھلنے والا

ہے بھنور بھنورحکایت،ہے یہ موج موج چرچا
کہ یہ بیڑا روزِ اوّل سے تھا بچ نکلنے والا

دل و جان کے مریضو! یہ خبر سنی تو ہو گی
وہ طبیب آ گیا ہے جو ہے دل بدلنے والا

لو ہؤا ہے پھر سویرا، وہ گھڑی بھی آن پہنچی
وہ جو دن تھا فیصلے کا نہیں آج ٹلنے والا

مجھے خوف ہے تو یہ ہے کہیں تم نہ ڈوب جاؤ
کہ زمیں کا ذرّہ ذرّہ ہے لہو اُگلنے والا

نہ سفر ہے مخلصانہ، نہ ہی راہبر ہے دانا
نہ ہی تم سنبھل سکو گے، نہ ہے وہ سنبھلنے والا

نہیں ایک تُوہی مضطر!ؔ یہ مکیں بھی جانتے ہیں
تری آہِ آتشیں سے یہ مکاں ہے جلنے والا

اگست ،١٩٨٨

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں