صفحات

اتوار، 31 جولائی، 2016

241۔ ناداں! ناحق کیوں گھبراتا ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ359

241۔ ناداں! ناحق کیوں گھبراتا ہے


ناداں! ناحق کیوں گھبراتا ہے
یہ رستہ منزل کو جاتا ہے

بات بنائے سے نہیں بنتی ہے
دل جب آتا ہے آ جاتا ہے

مت مایوس ہو اس کی رحمت سے
وہ داتا تو سب کا داتا ہے

عہد نے جو تصویر بنائی ہے
اس کا ہم دونوں سے ناتا ہے

ہم سب اس کی کوکھ سے نکلے ہیں
یہ دھرتی تو دھرتی ماتا ہے

تُو گھبراتا ہے آئینے سے
آئینہ تجھ سے گھبراتا ہے

سب لمحے زندہ ہو جاتے ہیں
وہ لمحہ جب ملنے آتا ہے

ہم اس عہد کے اندر رہتے ہیں
تُو جس کی تفصیل بتاتا ہے

وہ مالک ہے اپنی مرضی کا
جب چاہے چہرہ دکھلاتا ہے

غربت میں اس گل کے تصور سے
خوشبو سے کمرہ بھر جاتا ہے

مضطرؔ بھی کتنا خوش قسمت ہے
غصّہ پیتا ہے، غم کھاتا ہے

اگست، ١٩٨٨ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


242۔ پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ360

242۔ پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے


پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے
مجرم ہوں جرمِ عشق کا، انعام دیجیے

یہ کیا کہ چھپ کے عشق کا الزام دیجیے
دینی ہے جو سزا بھی سرِ عام دیجیے

اتنی بھی احتیاط نہ کیجے سرِ صلیب
نعرہ لگایئے، کوئی پیغام دیجیے

زہرِ غمِ حیات بھی پینے کی چیز ہے
سقراط ہوں تو زندگی کا جام دیجیے

مَیں بھی لکھوں فراق کے قصّے کتاب میں
بے کار پھر رہا ہوں، کوئی کام دیجیے

پہلے دل و دماغ کو پلکوں سے پونچھیے
پھر آنسوؤں کا جامۂ اِحرام دیجیے

کر دیجیے گا، قتل پہ مضطرؔ کے، دستخط
کوئی تو کام آپ بھی انجام دیجیے
جون، ١٩٨٨

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


243۔ حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ361۔362

243۔ حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے


حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے
وہ خود مر گیا، اس کو مارا نہیں ہے

یہ سب اس کے اپنے کیے کی سزا ہے
قصور اس میں ہرگز ہمارا نہیں ہے

وہ قہّار غفّار بھی ہے عزیزو!
پکارو اسے گر پکارا نہیں ہے

دکھایا ہے ہیبت کے ساتھ اس نے چہرہ
سوا اس کے اب کوئی چارہ نہیں ہے

کرو عرضِ حال اس سے تنہائیوں میں
وہ سب کا ہے تنہا ہمارا نہیں ہے

وہی بے سہاروں کا ہے اک سہارا
سوا اس کے کوئی سہارا نہیں ہے

یہ سارا قصور آپ کی آنکھ کا ہے
اگر اب بھی حق آشکارا نہیں ہے

جسے آپ حدِّ نظر کہہ رہے ہیں
فریبِ نظر ہے، کنارہ نہیں ہے

نہیں بولتے ہم، نہیں مسکراتے
اگر آپ کو یہ گوارا نہیں ہے

یہ سب سرزمیں ''سر'' کے اَجداد کی ہے
یہ ٹکڑا زمیں کا ہمارا نہیں ہے

نہ اتنا حکومت پہ اِترایئے گا
حکومت کسی کا اجارہ نہیں ہے

مَیں اپنے خدا کی ثنا کر رہا ہوں
یہ اشکِ ثنا ہے، ستارہ نہیں ہے

وہ سجدہ نہیں، اَور ہی کوئی شے ہے
جسے آنسوؤں نے سنوارا نہیں ہے

اشاروں ہی میں گفتگو کیجیے گا
اگر بات کرنے کا یارا نہیں ہے

ہمیں ہر کسی سے محبت ہے مضطرؔ!
کسی سے بھی نفرت گوارا نہیں ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


244۔ محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ363

244۔ محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں


محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں
خموشی سے تکرار تک آ گیا ہوں

وہ سورج ہے نکلا ہے مغرب میں جا کر
مَیں سایہ ہوں دیوار تک آ گیا ہوں

مہک ہوں تو مَیں پھیلتا جا رہا ہوں
اگر پھول ہوں خار تک آ گیا ہوں

یہ اعجاز ہے ہجر کا اے شبِ غم!
کہ فرقت سے دیدار تک آ گیا ہے

نہیں اتنی جرأت کہ در کھٹکھٹاؤں
اگرچہ درِ یار تک آ گیا ہوں

ملاقات کی کوئی صورت تو ہو گی
یہی سوچ کر دار تک آ گیا ہوں

اگر چپ رہا ہوں تو چرچے ہوئے ہیں
ہنسا ہوں تو اخبار تک آ گیا ہوں

بگولوں کا ڈر ہے نہ آندھی کا خطرہ
مَیں اب دشت کے پار تک آ گیا ہوں

ملے نہ ملے، اس کی مرضی ہے مضطرؔ!
مَیں داتا کے دربار تک آ گیا ہوں

اگست، ١٩٨٨ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


245۔ اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ364

245۔ اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں


اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں
قفس نصیب اسے فاصلہ بھی کہتے ہیں

یہ دور دور جو صحرا ہے بے یقینی کا
یقین ہو تو اسے کربلا بھی کہتے ہیں

وہی تو ہے کہ جو محرم ہے منزلِ غم کا
وہ رہنما کہ جسے قافلہ بھی کہتے ہیں

گیا بھی ہے تو وہ ہر بار لوٹ آیا ہے
بہت قدیم ہے یہ سلسلہ بھی، کہتے ہیں

عجیب بات ہے تم نے اسے نہ پہچانا
وہ معجزہ جسے دستِ دعا بھی کہتے ہیں

وہی تو ہے کہ جو آیا ہے میرے تیرے لیے
وہ ایک اچھا کہ جس کو برا بھی کہتے ہیں

کبھی تو ہو گا ادا آسمانِ غیرت پر
وہ قرضِ خوں کہ جسے خوں بہا بھی کہتے ہیں

نظر بھی آتا ہے اور راہ بھی دکھاتا ہے
وہ نقشِ پا جسے قبلہ نما بھی کہتے ہیں

زہے وہ حرفِ تسلّی، زہے وہ اذنِ سلام
جسے وفاؤں کا مضطرؔ! صلہ بھی کہتے ہیں

اگست ،١٩٨٨ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


ہفتہ، 30 جولائی، 2016

246۔ اس قدر مت خموش جان ہمیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ365

246۔ اس قدر مت خموش جان ہمیں


اس قدر مت خموش جان ہمیں
بے زبانی بھی ہے زبان ہمیں

ہم ہیں افراد غم قبیلے کے
ہو مبارک یہ خاندان ہمیں

قریۂ جاں میں، کوچۂ دل میں
کوئی دلوایئے مکان ہمیں

ہم مؤذّن ہیں عہد کے لیکن
کوئی دینے بھی دے اذان ہمیں

پھول خوشبو کے تھے سفیر مگر
دے گئے لمس کی تکان ہمیں

کس نے آنکھیں بنا کے پھینک دیا
اتنے چہروں کے درمیان ہمیں

ق

اس قدر بدگمانیوں کے بعد
کیا کہے گا وہ بدگمان ہمیں

کر لیا اس نے شہر پر قبضہ
بانٹ کر شہر کے مکان ہمیں

چھین کر لے گیا سفر کا شعور
دے گیا راہ کی تکان ہمیں

ہجر میں ہے وصال کی لذّت
ارضِ ربوہ ہے قادیان ہمیں

اس کو لکھا ہے ہم نے پلکوں سے
حفظ ہے ساری داستان ہمیں

ہم بغلگیر ہیں ستاروں سے
ہنس کے ملتا ہے آسمان ہمیں

دائیں بائیں کا فرق ہے پیارے!
تُو اسے مان لے یا مان ہمیں

اب تو تن کی خبر نہیں مضطرؔ!
کبھی من کا تھا گیان دھیان ہمیں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


247۔ تم اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ366

247۔ تم اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا


تم اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا
سرِ مقتل بھی گردن خم نہ کرنا

وہ آئیں یا نہ آئیں، غم نہ کرنا
دیے کی لَو کبھی مدّھم نہ کرنا

ستارے کہہ رہے ہیں صبحِ نو سے
ہماری موت کا ماتم نہ کرنا

مَیں اپنے آپ سے ٹکرا نہ جاؤں
مجھے میرا کبھی محرم نہ کرنا

اندھیرے میں نظر آنے لگوں گا
چراغوں کو ابھی مدّھم نہ کرنا

تصوّر سے سدا لڑنا جھگڑنا
مگر تصویر کو برہم نہ کرنا

کلی ہے اور مسلسل مسکراہٹ
اسے راس آ گیا ہے غم نہ کرنا

اگر ہے زندگی مطلوب مضطرؔ!
صداؤں میں صدا مدغم نہ کرنا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


248۔ جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ367۔368

248۔ جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا


جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا
اس کی خوشبو مکان میں رکھنا

اس سے دیوانہ وار مل کر بھی
فاصلہ درمیان میں رکھنا

اس نے چوما ہے اُس کے قدموں کو
یہ زمیں آسمان میں رکھنا

دشت در دشت گھومنا پھرنا
دل مگر قادیان میں رکھنا

اس قدر بھی نہ ہم فقیروں کو
معرضِ امتحان میں رکھنا

اشک در اشک، سجدہ در سجدہ
تیر کوئی کمان میں رکھنا

راستوں سے بھی دوستی کرنا
منزلوں کو بھی دھیان میں رکھنا

ہم فقیروں کی، بے نواؤں کی
لاج ہر دو جہان میں رکھنا

دوپہر ہے، برس رہی ہے آگ
پھول کو سائبان میں رکھنا

جب سمندر سے دوستی کر لی
دھیان کیا بادبان میں رکھنا

یہ محبت کے پھول ہیں مضطرؔ!
ان کو اجلے مکان میں رکھنا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی