اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ435۔436
293۔ حسنِ
نظر سے جب بھی ہؤا حسن کا ملاپ
حسنِ
نظر سے جب بھی ہؤا حسن کا ملاپ
لو
دے اُٹھی ہے کاغذی تصویر اپنے آپ
گم
ہو نہ جائے تُو کہیں اپنی تلاش میں
اے
خود شناس! روح کی گہرائیاں نہ ماپ
ناداں!
بدن سمیٹ لے، صحرا کو بھاگ چل
جلنے
کا خوف ہے تو نہ چہروں کی آگ تاپ
مدّت
ہوئی کہ ہم تری محفل سے جا چکے
اے
بے لحاظ! یہ خبر اخبار میں نہ چھاپ
اس
راگ میں مزہ ہے نہ رونق، نہ روشنی
فن
کا ہے احترام تو یہ راگ مت الاپ
چُھپتا
پھرے ہے اپنی خطاؤں کی اوٹ میں
بیٹے
کے ڈھنگ دیکھ کے شرما گیا ہے باپ
روزِ
حساب دامنِ رحمت میں چھپ گئیں
ان
کی تمام لغزشیں، میرے تمام پاپ
چھپنے
نہ پائی اس کی سرِ شب روانگی
پہچانتا
تھا ہر کوئی اس کے قدم کی چاپ
نالہ
نہیں، فغاں نہیں، دل کا دھواں نہیں
تم
آہ کہہ رہے ہو جسے جسم کی ہے بھاپ
مضطرؔ!
تم آخرت میں کسے منہ دکھاؤ گے
یہ
فلم زندگی کی اگر ہو گئی فلاپ
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں