اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ391۔392
264۔ یوں
تو کرنے کو احتیاط بھی کی
یوں
تو کرنے کو احتیاط بھی کی
ان
کو چاہا بھی، ان سے بات بھی کی
سرِ
اوجِ سناں حیات بھی کی
ان
کی بیعت سرِ فرات بھی کی
دور
اُن سے رہے ہزاروں سال
زندگی
ان کے ساتھ ساتھ بھی کی
لمحہ
لمحہ گنا فراق کا دن
چاند
نکلا تو چاند رات بھی کی
سجدہ
گاہوں کو کر دیا سیراب
اشک
در اشک شب برات بھی کی
چڑھ
گئے مسکرا کے سولی پر
جسم
اور جاں کی بازی مات بھی کی
ان
کہی کو بھی کہہ دیا منہ پر
ساتھ
اُمّیدِ التفات بھی کی
ایک
دل ہی نہ راہ پر آیا
یوں
تو تسخیرِ کائنات بھی کی
ہم
نے سولی کو بڑھ کے چوم لیا
دن
دِہاڑے یہ واردات بھی کی
کیوں
خفا ہو رہے ہو مضطرؔ سے
کچھ
کہا اس نے؟ کوئی بات بھی کی؟
٢٠جولائی،١٩٩١
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں