صفحات

منگل، 19 جولائی، 2016

303۔ ہر پھول انتخاب ہے، خوشبو لباس ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ451۔452

303۔ ہر پھول انتخاب ہے، خوشبو لباس ہے


ہر پھول انتخاب ہے، خوشبو لباس ہے
تُو اس ہجومِ حسن میں بھی کیوں اداس ہے

جس کو شعورِ ذات کی خلعت نہیں ملی
وہ پھول بیچ باغ کے بھی بے لباس ہے

مسرور ہو رہا ہے سرِ اوجِ دارِ غم
یہ غم شناس بھی بڑا لذّت شناس ہے

کس کے لہو سے ہے یہ لبالب بھرا ہؤا
قاتل کے دستِ ناز میں کیسا گلاس ہے

سب راستے گزرتے ہیں اس کے قریب سے
صحرائے نینوا میں جو چیرنگ کراس ہے

تم ڈھونڈتے پھرو ہو میاں! جس حسین کو
اس کا کوئی بدن ہے نہ کوئی لباس ہے

سولی پہ سو رہے ہو سرِ اوجِ احتمال
مرنے کا حوصلہ ہے نہ جینے کی آس ہے

بستے ہیں اس میں سینکڑوں کژدم، ہزار سانپ
غافل!جو تیری عقل کے آنگن میں گھاس ہے

دم گھٹ کے مر گیا ترے اندر کا آدمی
کیا اس کا خوں بہا بھی ہے؟کوئی قصاص ہے؟

طولِ امل سے کچھ نہیں حاصل ہؤا کبھی
یہ وہ محل ہے ریت پہ جس کی اساس ہے

چمٹا ہؤا ہے ہر کوئی لمحوں کی لاش سے
ماضی کی تلخیوں میں بھی کتنی مٹھاس ہے

کوئی فصیلِ شہر کو اب پھاند کر نہ آئے
یاروں کا شہریار سے یہ التماس ہے

تنہائیوں کو بھی نہیں تنہائیاں نصیب
لگتا ہے کوئی دیکھنے والا بھی پاس ہے

تُو آئنے سے بات تو کر، سامنے تو آ
اس کا نہ کر گلہ کہ وہ چہرہ شناس ہے

جایا کروں ہوں بہرِ زیارت کبھی کبھی
ماضی کا مقبرہ تو یہیں دل کے پاس ہے

غالبؔ کی سرزمین میں رکھّا تھا کیوں قدم؟
مضطرؔ! نہ تو کبیرؔ ہے نے سورداسؔ ہے

١٩٥٨ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں