اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ397
268۔ ذکر
اپنا کبھی تمھارا کیا
ذکر
اپنا کبھی تمھارا کیا
جس
طرح ہو سکا گزارا کیا
بر
سرِ دار دی وفا کی اذاں
عشق
کا جرم آشکارا کیا
درد
ہی لاعلاج تھا اپنا
ورنہ
کیا کیا نہ ہم نے چارہ کیا
بات
دل کی زباں پہ آ نہ سکی
یوں
تو کرنے کو ذکر سارا کیا
ٹکڑے
ٹکڑے کیے گئے ہم لوگ
وہ
کھڑا زلف کو سنوارا کیا
تُو
نہ آیا تو درد کا مارا
تیری
تصویر کو پکارا کیا
وہ
''کھلے شہر'' ہی میں رہتا تھا
تُو
جسے عمر بھر پکارا کیا
تیرے
غم کے طفیل مضطرؔ نے
ساری
دنیا کا غم گوارا کیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں