اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ419۔420
283۔ چادر
سروں پہ کوئی تو اے آسمان! دے
چادر
سروں پہ کوئی تو اے آسمان! دے
سایہ
اگر نہیں ہے تو سورج ہی تان دے
بیدار
پانیوں کے کنارے مکان دے
داتا!
نئی زمین، نیا آسمان دے
صدیوں
کو تو زبان دی، لہجہ عطا کیا
لمحہ
بھی بولتا ہے، اسے بھی زَبان دے
طے
ہو سکیں گے ہم سے نہ فرقت کے فاصلے
دینا
ہے کچھ تو قربتوں کے درمیان دے
سورج
بکھیر دے مرے اندر صفات کے
اس
دھند میں بھی روشنی کے سائبان دے
کیوں
بارِ غم اُٹھا لیا تھا تُو نے عشق کا
اس
کا جواب بھی اے دلِ ناتوان! دے
ایسا
نہ ہو کہ پھر کہیں ہو جائیں قلعہ بند
ہم
لامکانیوں کو نہ کوئی مکان دے
اپنی
نظر سے بھی کبھی اپنی نظر ملا
دعویٰ
ہے عشق کا تو کوئی امتحان دے
لفظوں
کے لب پہ حرفِ تمنا نہ آئے گا
اے
عہد کے کلیم! انھیں ترجمان دے
انکار
کے بھنور میں ہے کشتی پھنسی ہوئی
بادِ
مرادِ عشق! کوئی بادبان دے
یہ
عہدِ نو جو پیدا ہؤا ہے ابھی ابھی
اٹھ
اور اس کے کان میں مضطرؔ! اذان دے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں