اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 465
315۔ درود تیرےؐ لیے ہے، سلام تیراؐ ہے
درود
تیرےؐ لیے ہے، سلام تیراؐ ہے
خدا
کے بعد مرے لب پہ نام تیرا ہے
ترے
مقام کی سرحد کو چھو سکا نہ کوئی
کہ
ہر مقام سے آگے مقام تیرا ہے
ترا
ہی نطق ہے مَا
یَنْطِقُ کا
آئینہ
خدا
کا ہے جو بظاہر کلام تیرا ہے
ترے
بغیر تو ملتا نہیں ہے مالک بھی
کہ
اس کی ذات کو بھی احترام تیرا ہے
ترے
جلال پہ حاوی جمال ہے تیرا
تمام
عفو ہے جو انتقام تیرا ہے
رہے
نہ اسود و ابیض، نہ احمر و اصفر
یہ
کام تُو نے کیا ہے، یہ کام تیرا ہے
چھلک
رہا ہے جو دن رات جام رحمت کا
مرے
کریم یہ کأس الکرام تیرا ہے
جہاں
قرار ملا مجھ سے بے قراروں کو
قرارگاہ
وہ دارالسلام تیرا ہے
سبھی
حسین ترے حسن کے بھکاری ہیں
کہ
ناتمام ہیں اور حسنِ تام تیرا ہے
ترا
ہی چشمۂ صافی ہے کوثر و تسنیم
مئے
طہور سے لبریز جام تیرا ہے
عجب
نہیں کہ خدا مہربان ہو جائے
کہ
ذکر میری زباں پر مدام تیرا ہے
عجب
نہیں ہے کہ مضطرؔ کی لاج رہ جائے
کہ
بے ہنر تو ہے لیکن غلام تیرا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں