اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ385۔386
260۔ نذرِ
غالب
کوئی کلاہ نہ کوئی لبادہ رکھتے ہیں
سفر نصیب ہیں، احرامِ سادہ رکھتے ہیں
سلگ رہے ہیں جو ان منجمد پہاڑوں پر
یہ پھول آگ ہیں،جلنے کا مادہ ٭؎ رکھتے
ہیں
ہمیں بتاؤ ملاقات کا طریقہ بھی
کہ اس سے ملنے کا ہم بھی ارادہ رکھتے
ہیں
ہمارے ہاں تو حکومت فقط اسی کی ہے
نہ کوئی شاہ، نہ ہم شاہزادہ رکھتے ہیں
ہم اس کے نام پہ خلقت میں بانٹنے کے
لیے
قبول ہو تو بدن کا برادہ رکھتے ہیں
اگر وہ ہے تو اسے چاہیے کہ بولے بھی
اگرچہ ''ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں''
ہمی تو ہیں کہ جو صحرائے بے تمنّا میں
شعورِ منزل و تکلیفِ جادہ رکھتے ہیں
تُو آزما تو سہی حوصلے فقیروں کے
مکان تنگ سہی، دل کشادہ رکھتے ہیں
جھگڑ رہے ہو عبث آنسوؤں سے تم مضطرؔ!
یہی تو ہیں جو سفر کا ارادہ رکھتے ہیں
٭۔۔۔۔۔۔اصل لفظ ''مادّہ'' ہے۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں