اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ430
289۔ سنّاٹوں سے کہہ دو یہ گھر میرا ہے
سنّاٹوں
سے کہہ دو یہ گھر میرا ہے
دل
دیواریں میری ہیں، در میرا ہے
مَیں
خود ہی مدفون ہوں گھر کے آنگن میں
نیزے
پر جو ر کھا ہے سر میرا ہے
مَیں
ہی صف بستہ ہوں سوچ سمندر میں
ساحل
پر بھی پیاس کا لشکر میرا ہے
کانٹے
ہی کانٹے ہیں دشتِ ملامت میں
ان
کانٹوں کے اوپر بستر میرا ہے
جس
کی ضرب سے اندھیارے مسمار ہوئے
وہ
آنسو، وہ آنکھ کا پتھر میرا ہے
میرے
نام پہ قدغن ہے اَخباروں میں
اور
خبروں میں ذکر بھی اکثر میرا ہے
مَیں
ہی جاگ رہا ہوں عہدِ اذ ّیت میں
حدِّ
نظر تک سارا منظر میرا ہے
اونچے
محل منارے چکنا ُچور ہوئے
صحیح سلامت اب بھی چھپّر میرا ہے
بگڑی
بات بنی، جب میرے آقا نے
ہولے
سے فرمایا: مضطرؔ میرا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں