اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ406
275۔ وہ
دل میں آ کے نہ ٹھہریں ،کبھی گزر تو کریں
وہ دل میں آ کے نہ ٹھہریں ،کبھی گزر
تو کریں
غریبِ شہر کے حالات پر نظر تو کریں
بلا سے قافلے والے قدم شناس نہیں
علاج دورئ منزل کا راہبر تو کریں
تمھارا اسم بھی ہو جائے گا دلوں پر
نقش
تمھارے اسم کی تکرار عمر بھر تو کریں
سحر پکارے گی، تارے کریں گے سرگوشی
فصیلِ ہجر کے سائے میں شب بسر تو کریں
گھڑی قبول کی بھی آئے گی کبھی نہ کبھی
صدائے نالہ و واویلا تا سحر تو کریں
وہ ہم سے ملنے کو آئیں گے خود بخود
مضطرؔ!
حریمِ ناز میں جا کر انھیں خبر تو کریں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں