اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ372
251۔ گہرائیوں
میں غم کی اُتر جانا چاہیے
گہرائیوں میں غم کی اُتر جانا چاہیے
یہ مرحلہ بھی سر سے گزر جانا چاہیے
سولی پہ چڑھ کے کس لیے ہنستے نہیں ہیں
لوگ
یہ بے یقینیاں ہیں تو مر جانا چاہیے
سب ڈَھے چکی ہیں ساحلِ غم کی عمارتیں
اب تو سمندروں کو اُتر جانا چاہیے
تاریکیاں نہ قبضہ جما لیں مکان پر
اے آفتاب! لوٹ کے گھر جانا چاہیے
پت جھڑ کے اژدہام میں خوشبو کے دوش
پر
پھولوں کو مسکرا کے بکھر جانا چاہیے
پلکوں کے پار لاکھوں نکلتے ہیں راستے
اے اشکِ ناتمام! کدھر جانا چاہیے
ہیں منتظر پرانے مکاں کی خموشیاں
کوئی سفیرِ صوت ادھر جانا چاہیے
مضطرؔ! حریمِ ذات میں اتنی جسارتیں
ڈرنے کا ہو مقام تو ڈر جانا چاہیے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں