اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ387
261۔ میرے
اس کے درمیاں تو فاصلہ کوئی نہ تھا
میرے اس کے درمیاں تو فاصلہ کوئی نہ
تھا
پھر نہ جانے کیوں مجھے اس سے گلہ کوئی
نہ تھا
آسماں نیچے اُتر آیا تھا مجھ کو دیکھ
کر
اس کا اب رمزآشنا میرے سوا کوئی نہ
تھا
راہرو رفتار کے چکر میں تھے آئے ہوئے
منزلیں ہی منزلیں تھیں، راستہ کوئی
نہ تھا
لفظ ننگے پاؤں، ننگے سر، بھرے بازار
میں
پھر رہے تھے اور ان کو ٹوکتا کوئی نہ
تھا
عشق اپنی اوٹ میں سویا ہؤا تھا چین
سے
اس کا دعویٰ تھا اسے پہچانتا کوئی نہ
تھا
ایک ہی کشتی میں تھے بیٹھے ہوئے چھوٹے
بڑے
نوح ؑکے طوفان میں چھوٹا بڑا کوئی نہ
تھا
آئنہ خانوں پہ اک بحران تھا آیا ہؤا
آئنہ بردار گم تھے، آئنہ کوئی نہ تھا
پہلے بھی کوئے ملامت سے تھی نسبت دُور
کی
اَور اب تو شہر میں مجھ سے برا کوئی
نہ تھا
مجھ کو اپنی بندگی کی شرم دامن گیر
تھی
وہ سمجھتا تھا کہ مضطرؔ کا خدا کوئی
نہ تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں