اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ427۔428
287۔ آئی ہے اس کی یاد یوں سُونے گھروں کے بیچ
آئی ہے اس کی یاد یوں سُونے گھروں کے بیچ
جیسے کوئی گلاب کھلے پتھروں کے بیچ
محصور خیمہ زن ہیں سرِ دشتِ کربلا
بیٹھے ہوئے ہیں ہم بھی اِنھی بے گھروں کے بیچ
لایا ہوں اوجِ دار سے اس کو اتار کر
لپٹا ہؤا ہے سر جو نئی چادروں کے بیچ
دیکھا قریب سے تو نظارہ بدل گیا
اور اختلاف بڑھ گیا دیدہ وروں کے بیچ
آباد ہو رہے ہیں پرانے صنم کدے
بت مسکرا رہے ہیں نئے آذروں کے بیچ
نکلے ہیں لوگ عمرِ گزشتہ کو ڈھونڈنے
انسان کھو گیا ہے کہیں مقبروں کے بیچ
سب ڈَھے گئی ہے شہر پنہ شہرِ ذات کی
اب دائرے ہی دائرے ہیں دائروں کے بیچ
پینا پڑے تو پیجیے گا احتیاط سے
زہرِ غمِ حیات ہے ان ساغروں کے بیچ
کرنے چلا ہے فیصلہ سانپ اقتدار کا
موسٰیؑ کے اور مصر کے جادوگروں کے بیچ
مضطرؔ! شبِ فراق کا مرغِ سحر شناس
تارے چھپا کے لے گیا اُجلے پروں کے بیچ
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں