صفحات

ہفتہ، 30 جولائی، 2016

249۔ عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ369۔370

249۔ عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں


عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں
رگ رگ میں لاکھوں نوکیلے نشتر لے کر بیٹھا ہوں

شورِ قیامت برپا ہے انکار کے عریاں خانوں میں
باہر میں ہوں اور اقرار کے محشر لے کر بیٹھا ہوں

مجھ سے ملو، مجھ کو پہچانو، مستقبل ہوں دھرتی کا
قطرہ ہوں، دامن میں سات سمندر لے کر بیٹھا ہوں

اس کو شوق ہے ہر نووارِد لمحے کی توصیف کرے
مَیں پلکوں میں ایک پرانا منظر لے کر بیٹھا ہوں

تخت و تاج کا شوق نہ مجھ کو خواہش جھوٹی عزت کی
خاک نشیں ہوں، خاک میں بوریا بستر لے کر بیٹھا ہوں

چاہتا ہوں مَیں ایک نرالا تاج محل تعمیر کروں
کتنے آنسو، کتنے لعل جواہر لے کر بیٹھا ہوں

ان کو خوف ہے کشتی ڈوب نہ جائے ایک تھپیڑے سے
مَیں طوفان میں اطمینان کے لنگر لے کر بیٹھا ہوں

مَیں نے کہا تھا شہرِ صلیب میں بارش ہو گی پھولوں کی
وہ بولا تھا مَیں رستے میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں

میرے فرقت خانے کی جانب بھی جاناں ایک نظر
کتنی اُمّیدوں کے، پیار کے پیکر لے کر بیٹھا ہوں

تپتا صحرا ہے اور بادِ سموم کے جلتے جھکڑ ہیں
مَیں ہوں اور تیری پہچان کی چادر لے کر بیٹھا ہوں

تیرے لطف کی بارش نے بھی تھمنے کا نہیں نام لیا
مَیں بھی تیری حمد و ثنا کے دفتر لے کر بیٹھا ہوں

چاہو تو اب پارس کر دو ان کو ایک اشارے سے
غفلت کے انبار، عمل کے کنکر لے کر بیٹھا ہوں

٩اگست،١٩٩٧

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں