اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ433۔434
292۔ بس
اک اشک سے دھل گئے سارے سینے
بس
اک اشک سے دھل گئے سارے سینے
گلے
ہیں نہ شکوے، کدورت نہ کِینے
مَیں
کس کس کا لوں نام اس سلسلے میں
یہ
احساں تو مل کر کیا تھا سبھی نے
پلٹ
کر پڑی منہ پہ جا کر اسی کے
دعا
کی تھی ہم پر جو اک مولوی نے
اسے
کام آئی نہ طاقت، نہ کثرت
مری
لاج رکھ لی مری بے کسی نے
کبھی
تو گرے گی یہ دیوارِ فرقت
کبھی
ہم بھی جائیں گے مکّے مدینے
اسے
زعم میری زَباں بند کر دی
مجھے
آ گئے گفتگو کے قرینے
جسے
فخر تھا اپنے زورِ بیاں پر
اسے
مار ڈالا مری خامشی نے
یہ
ساری زمیں میرے رب کی زمیں ہے
نہ
تم بے زمینے، نہ ہم بے زمینے
وہ
چہرہ نہیں چاند ہے چودھویں کا
اُسے
بھی کبھی دیکھ اے بے یقینے!
یہ
فرقت کی راتیں ہیں آباد راتیں
مہینے
یہی وصل کے ہیں مہینے
میں
جاناں کی خدمت میں کیا لے کے جاؤں
یہ
جسم اور جاں تو دیے ہیں اسی نے
ہمی
مستحق تھے ملامت کے مضطرؔ!
محبت
کا دعویٰ کیا تھا ہمی نے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں