صفحات

ہفتہ، 16 جولائی، 2016

316۔ تُم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ 467۔468

316۔ تُم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی


تُم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی
اُٹھ جائے گی جہان سے خو شبو کی پالکی

توصیف کیا کرے گا ترےؐ ماہ و سال کی
جس نے کبھی نہ کھائی ہو روزی حلال کی

تشبیہ اور حضورؐ کے حسن وجمال کی!
یعنی مثال ہی نہ ہو جس بے مثال کی

جس کے کمال کو نہیں خطرہ زوال کا
ہم بات کر رہے ہیں اسی لازوال کی

وہ گل سدا بہار ہے، موسم کوئی بھی ہو
فرقت کی ہووے فصل کہ رُت ہو وصال کی

واللّٰہ! بے مثال تھا جو کام بھی کیا
ـ''جو بات کی، خدا کی قسم! بے مثال کی''

رہ جائیں گے ٹھٹھر کے ترے پاشکستگاں
شدّت اگر نہ کم ہوئی بادِ شمال٭؎ کی

بچ کر نکل نہ جائے سفینہ مراد کا
طوفان کو خلش ہے اسی احتمال کی

اس نے تو مجھ کو زندۂ جاوید کر دیا
یہ جو خبر اڑی ہے مرے انتقال کی

اس میں نہ تھا قصور فقط باغبان کا
تقصیر پات پات کی تھی، ڈال ڈال کی

مرجھا نہ جائے پیڑ کہیں انتظار کا
اس کی نہ جسم و جاں سے اگردیکھ بھال کی

تنہائیوں کے اشکِ ندامت کا ذکر ہے
ہے بات آدھی رات کے آبِ زلال کی

مَیں ہوں تو صرف احمدی ہوں اور محمدی
ہوں شافعی نہ حنبلی، حنفی نہ مالکی

یہ کیا کہ ملنے آئے ہو مضطرؔ غریب سے
صحبت میں جا کے بیٹھو کسی باکمال کی

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں