اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ485۔486
329۔ پسِ لمحہ جو لمحہ سو رہا ہے
پسِ لمحہ جو لمحہ سو رہا ہے
یہ سب کچھ اس کی خاطر ہو رہا ہے
جسے تم کہہ رہے ہو عہدِ رفتہ
وہ رفتہ رفتہ زندہ ہو رہا ہے
اسی کا نام ہے شاید محبت
یونہی جو سانحہ سا ہو رہا ہے
گئی ہے ماں کہیں محفل سجانے
مگر بچہ اکیلا سو رہا ہے
نظر آنے لگے ہیں چاند چہرے
قفس میں کوئی تارے بو رہا ہے
جو کھویا تھا اسے پانے کی خاطر
جو پایا تھا اسے بھی کھو رہا ہے
لہو کے داغ ہیں جو آستیں پر
انھیں اپنے لہو میں دھو رہا ہے
اگرچہ منہ سے کچھ کہتا نہیں ہے
اسے معلوم ہے جو ہو رہا ہے
کہیں ایسا نہ ہو بن جائے پتھر
کہ ہنستا ہے نہ پاگل رو رہا ہے
سَوا نیزے پہ آ پہنچا ہے سورج
دلِ نادان پھر بھی سو رہا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں