صفحات

اتوار، 31 جولائی، 2016

244۔ محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ363

244۔ محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں


محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں
خموشی سے تکرار تک آ گیا ہوں

وہ سورج ہے نکلا ہے مغرب میں جا کر
مَیں سایہ ہوں دیوار تک آ گیا ہوں

مہک ہوں تو مَیں پھیلتا جا رہا ہوں
اگر پھول ہوں خار تک آ گیا ہوں

یہ اعجاز ہے ہجر کا اے شبِ غم!
کہ فرقت سے دیدار تک آ گیا ہے

نہیں اتنی جرأت کہ در کھٹکھٹاؤں
اگرچہ درِ یار تک آ گیا ہوں

ملاقات کی کوئی صورت تو ہو گی
یہی سوچ کر دار تک آ گیا ہوں

اگر چپ رہا ہوں تو چرچے ہوئے ہیں
ہنسا ہوں تو اخبار تک آ گیا ہوں

بگولوں کا ڈر ہے نہ آندھی کا خطرہ
مَیں اب دشت کے پار تک آ گیا ہوں

ملے نہ ملے، اس کی مرضی ہے مضطرؔ!
مَیں داتا کے دربار تک آ گیا ہوں

اگست، ١٩٨٨ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں