صفحات

منگل، 19 جولائی، 2016

302۔ یوں نہ مجبور کو مسند پہ بٹھایا جائے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ449۔450

302۔ یوں نہ مجبور کو مسند پہ بٹھایا جائے


یوں نہ مجبور کو مسند پہ بٹھایا جائے
فیصلہ تم نے جو لکّھا ہے سُنایا جائے

قتلِ ناحق کا اگر حکم سنایا جائے
کچھ تو اس حکم کا مقصد بھی بتایا جائے

کی عطا جس نے ہمیں اپنی غلامی کی سَنَد
اس کا احسان بھلا کیسے بھلایا جائے

یوں سما جاتا ہے وہ روح میں لذّت بن کر
جیسے آئینے کے اندر کوئی سایہ جائے

روز ہو جاتی ہے دربان سے ٹکر اپنی
مقتلِ جاں میں بھی چپکے سے نہ جایا جائے

اس کے انجام کو دیوار پہ چسپاں کر دو
وہ اگر جاتا ہے تو بارِ خدایا جائے

میرے ہمدرد نہ بن جائیں مرے ہمراہی
میرے ماتھے پہ مرا غم نہ سجایا جائے

چاندنی رات کو پھرنے دیا جائے تنہا
چاند کے دودھ میں پانی نہ ملایا جائے

چین سے سونے دیا جائے کتابوں میں مجھے
مجھ گئے وقت کو واپس نہ بلایا جائے

اب تو اپنے بھی یہاں نام پتا پوچھتے ہیں
کُوئے الزام میں اپنا نہ پرایا جائے

اس کو سمجھانے کی کوشش تومَیں کر لوں مضطرؔ!
دلِ ناداں کو مرے سامنے لایا جائے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں