اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ401
271۔ عمر
بھر اشک کی آواز پہ چلنے والے!
عمر
بھر اشک کی آواز پہ چلنے والے!
فکر
مت کر کہ یہ سورج نہیں ڈھلنے والے
عمر
گزرے گی یونہی آنکھ کی دربانی میں
رکنے
والے ہیں نہ یہ اشک سنبھلنے والے
تم
اگر ہنس کے بلا لو تو بہل جائیں گے
ہم
ہیں نادان کھلونوں سے بہلنے والے
اپنی
تصویر کا انجام بھی سوچا ہوتا
اے
مرے شہر کی تصویر بدلنے والے!
منجمد
چہروں کی خاموش نگاہی پہ نہ جا
ایک
آہٹ سے یہ پتھر ہیں پگھلنے والے
مَیں
اکیلا تو ہوں، تنہا نہیں ان گلیوں میں
میرے
بدخواہ مرے ساتھ ہیں چلنے والے
آنکھ
کے پانی سے کچھ اس کا مداوا کرلے
شہر
جلنے کو ہیں، دریا ہیں اُبلنے والے
چڑھ
بھی اے آنکھ کے سورج!سرِ شاخِ اُمّید
صبح
ہونے کو ہے، نقشے ہیں بدلنے والے
دل
بھی بوجھل ہے بہت، آنکھ بھی نم ہے مضطرؔ!
گھِر
کے آئے ہیں یہ بادل نہیں ٹلنے والے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں