اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ367۔368
248۔ جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا
جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا
اس کی خوشبو مکان میں رکھنا
اس سے دیوانہ وار مل کر بھی
فاصلہ درمیان میں رکھنا
اس نے چوما ہے اُس کے قدموں کو
یہ زمیں آسمان میں رکھنا
دشت در دشت گھومنا پھرنا
دل مگر قادیان میں رکھنا
اس قدر بھی نہ ہم فقیروں کو
معرضِ امتحان میں رکھنا
اشک در اشک، سجدہ در سجدہ
تیر کوئی کمان میں رکھنا
راستوں سے بھی دوستی کرنا
منزلوں کو بھی دھیان میں رکھنا
ہم فقیروں کی، بے نواؤں کی
لاج ہر دو جہان میں رکھنا
دوپہر ہے، برس رہی ہے آگ
پھول کو سائبان میں رکھنا
جب سمندر سے دوستی کر لی
دھیان کیا بادبان میں رکھنا
یہ محبت کے پھول ہیں مضطرؔ!
ان کو اجلے مکان میں رکھنا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں