صفحات

منگل، 19 جولائی، 2016

301۔ جو لمحہ بھی اشکوں سے لادا گیا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ447۔448

301۔ جو لمحہ بھی اشکوں سے لادا گیا


جو لمحہ بھی اشکوں سے لادا گیا
وہ آدھا رکا اور آدھا گیا

وہ بادل جو گرجا تھا احساس کا
برستا ہؤا حسبِ وعدہ گیا

وہ مجبور تھا اپنے حالات سے
جدھر بھی گیا بے ارادہ گیا

نہاں خانۂ دل کا پردہ نشیں
بھری بزم میں بے لبادہ گیا

سلگتا، سنورتا، سنبھلتا ہؤا
یہ کس دیس کا شاہزادہ گیا

وہ بیٹھا رہا دل کی دہلیز پر
مَیں جس کے لیے جادہ جادہ گیا

وہ خود بے حجابانہ آ کر ملا
مَیں جب اس کے ہاں پاپیادہ گیا

وہی بن گیا مرجعِ خاص و عام
جو اس کی گلی میں زیادہ گیا

ہوس کی سواری گئی ساتھ ساتھ
جہاں تک بدن کا برادہ گیا

حسینوں کے انداز بدلے گئے
وہ بت اس قدر تھا جو سادہ گیا

مَیں خوش ہوں کہ مضطرؔ! قدم دو قدم
قفس تک تو رستہ کشادہ گیا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں