اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ429
288۔ آنکھ
کے آسیب جب تک جا نہ لیں
آنکھ
کے آسیب جب تک جا نہ لیں
خوں
بہا تصویر کا لیں یا نہ لیں
چاند
کو ڈر ہے کہ اس آشوب میں
آہٹیں
آبادیوں کو کھا نہ لیں
پوچھتی
ہے مجھ سے کم ظرفی مری
اس
گلِ خوبی سے کیا لیں، کیا نہ لیں
ہر
کوئی شامل تھا قتلِ عام میں
آپ
یہ ذمّہ تنِ تنہا نہ لیں
یہ
تمھارے ساتھ ہیں جیسے بھی ہیں
ان
اسیروں سے مگر وعدہ نہ لیں
جس
کے مالک بھی بِکاؤ مال ہوں
آپ
اس دُکّان سے سودا نہ لیں
روح
کہتی ہے کہ منزل دور ہے
جسم
کہتا ہے ذرا سستا نہ لیں؟
اس
کی خاطر اس دھوئیں اور دھند میں
کوئی
بے آواز ٹھوکر کھا نہ لیں
واہ
مضطرؔ! تم بھی کہتے ہو کہ پھول
قتل
ہو جائیں مگر بدلہ نہ لیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں