اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ396
267۔ یوں
تو سورج سے تصادم ٹل گیا
یوں
تو سورج سے تصادم ٹل گیا
دھوپ
سے دھرتی کا چہرہ جل گیا
بر
سرِ بازار پھر سولی سجی
پھر
کوئی منصور سر کے بل گیا
پھر
نکل آئے گلی کوچوں میں لوگ
جلتے
جلتے شہر سارا جل گیا
ہوتے
ہوتے ہو گئی ترکی تمام
پھر
وہی پہلا سا چکّر چل گیا
کوئی
تو آیا تھا چھپ کر شہر میں
کوئی
تو چہروں پہ کالک مل گیا
اب
نہیں پہلی سی شدّت دھوپ میں
آفتابِ
عمر مضطرؔ! ڈھل گیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں