اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ399۔400
270۔ سچّا
تو کائنات کو سچّا دکھائی دے
سچّا
تو کائنات کو سچّا دکھائی دے
یہ
اور بات ہے تمھیں جھوٹا دکھائی دے
اوجِ
صلیبِ غم پہ جو بیٹھا دکھائی دے
ہم
کو تو اپنے عہد کا عیسیٰ دکھائی دے
آواز
کے اُفق پہ جو چہرہ دکھائی دے
آنکھوں
میں نور ہو تو ہمیشہ دکھائی دے
سب
سے جدا ہو، سب سے انوکھا دکھائی دے
کوئی
تو اس ہجوم میں تم سا دکھائی دے
اوڑھے
ہوئے نہ ہو اگر آواز کی ردا
ہر
لفظ بے لباس ہو، ننگا دکھائی دے
آشوبِ
اختلاف سے دھندلا گئی نظر
اپنا
دکھائی دے نہ پرایا دکھائی دے
تُو
بھی کبھی وجود سے باہر نکل کے دیکھ
شاید
تجھے وجود کا ملبہ دکھائی دے
مٹی
کا لمس، دھوپ کی لذّت کہیں اسے
پانی
پہاڑ سے جو اُترتا دکھائی دے
اس
سے کہو کہ دن کو نہ نکلے مکان سے
جو
شخص چاند رات میں ہنستا دکھائی دے
بالشتیوں
کے دیس کی رسمیں عجیب ہیں
ہر
کوئی اپنے قد سے جھگڑتا دکھائی دے
جوشِ
نمو نہ لذّتِ آزارِ آرزو
اندر
ہی کچھ نہ ہو تو اسے کیا دکھائی دے
مضطرؔ!
فراقِ یار کے یہ معجزات ہیں
لمحہ
کبھی صدی، کبھی لمحہ دکھائی دے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں