صفحات

پیر، 25 جولائی، 2016

274۔ راہرو رستے میں بیٹھا رہ گیا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ405

274۔ راہرو رستے میں بیٹھا رہ گیا


راہرو رستے میں بیٹھا رہ گیا
ڈَھے گئی دیوار سایہ رہ گیا

مر کے بھی یہ شخص زندہ رہ گیا
عشق کا بیمار اچھا رہ گیا

چھپ گئی منزل نظر کی اوٹ میں
راستہ کروٹ بدلتا رہ گیا

لاکھ برگِ شرم سے ڈھانپا بدن
ابنِ آدم پھر بھی ننگا رہ گیا

مَیں شہیدِعشق ہوں،میرے لیے
ایک ہی جینے کا رستہ رہ گیا

رات آدھی رات کو قطبین پر
چھپ گیا سورج، اجالا رہ گیا

لوگ تصویریں بنا کر لے گئے
مَیں لکیروں سے جھگڑتا رہ گیا

ہوتے ہوتے پیڑ خالی ہو گئے
ایک پانی کا پرندہ رہ گیا

آئنوں سے بات کرنے کے لیے
آئنہ بردار تنہا رہ گیا

روشنی کا ذکر کرنے کے لیے
ایک مَیں آنکھوں کا اندھا رہ گیا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں