اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ480
326۔ اس سفر کا کبھی انجام نہ ہونے پائے
اس سفر کا کبھی انجام نہ ہونے پائے
ساتھ سورج کے چلو، شام نہ ہونے پائے
نہ سہی دوست مگر دشمنِ جاں ہے اپنا
قاتلِ شہر ہے، بدنام نہ ہونے پائے
سر قلم لفظ کا کرنے تو چلے ہو لیکن
قتلِ ناحق ہے، سرِ عام نہ ہونے پائے
تم کِیا کرتے ہو تنقید برائے تنقید
کام یہ ہے کہ کوئی کام نہ ہونے پائے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں