اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ445
299۔ سولی
کو جو سجا سکے وہ سر تلاش کر
سولی
کو جو سجا سکے وہ سر تلاش کر
اے
شیخِ شہر! پھر کوئی کافر تلاش کر
موسم
بدل چکا ہے، بدل لے لباس بھی
عینک
اتار دے، نئے منظر تلاش کر
کیوں
گر رہا ہے تیرا بدن ٹوٹ ٹوٹ کر
اس
کا بھی کچھ علاج، برادر! تلاش کر
جاناں
کا غم، جہان کا غم ہو کہ جان کا
کوئی
تو اپنی ذات کا محور تلاش کر
کچھ
کر سکے تو ساحلِ غم کے سبک نشیں!
سیلاب
میں گھرے ہوؤں کے گھر تلاش کر
تھوڑی
بہت اِنھی سے توقّع ہے خلق کو
غنڈوں
کا عہدِ عشق میں دفتر تلاش کر
منصورِ
عہد ہوں، مرا کر کچھ تو احترام
کچھ
پھول توڑ لا، کوئی پتھر تلاش کر
یہ
پیاس بجھ سکے گی نہ آبِ حیات سے
اے
تشنہ کام! آنکھ کا کوثر تلاش کر
دیوارِ
وضعدارئ دل کب کی ڈھے چکی
مٹتے
ہوئے محاذ نہ مضطرؔ! تلاش کر
(سقوطِ
ڈھاکہ)
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں