اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 461۔462
312۔ اوڑھ کر آئین کا جھوٹا لبادہ اس برس
اوڑھ
کر آئین کا جھوٹا لبادہ اس برس
بن
گیا مُلّا کا بچّہ شاہزادہ اس برس
جھوٹ
کے اس عہد میں شوخی سے ٹخنے جوڑ کر
ایک
جھوٹے نے کیا اک اور وعدہ اس برس
دیکھیے
کیا غیب سے ظاہر ہو، وہ نکلا تو ہے
میرے
قتلِ عام کا کر کے ارادہ اس برس
جھوٹ
بولا ہے جو اس نے مصطفی ؐکے نام پر
اس
کا اخباروں میں اب ہو گا اعادہ اس برس
ہر
طرح کے مجھ پہ اب بہتان باندھے جا ئیں گے
جھوٹ
سے جھوٹے کریں گے استفادہ اس برس
قوم
کی ناموس کو ظالم نے گروی رکھ دیا
بک
گیا جتنا بھی تھا غیرت کا مادہ اس برس
اِن
بھری گلیوں میں ہو گا کوئی تو رجلِ رشید
کہہ
سکے جو اس کے منہ پر حرفِ سادہ اس برس
حسبِ
سابق بیچ کھانے کے لیے شاہ و وزیر
بانٹ
لیں گے ملک کو پھر آدھا آدھا اس برس
کیفرِ
کردار کو پہنچیں گے سب مذہب فروش
کر
دیے جائیں گے مجرم بے لبادہ اس برس
ق
منزلیں
کیوں جاگ اُٹھّی ہیں سرِ شامِ فراق
کس
حسیں کا منتظرہے جادہ جادہ اس برس
حیدرِ
کرّار کے دیدار کی حسرت لیے
ایک
خلقت راہ میں ہے ایستادہ اس برس
یار
اگر واپس نہ آیا جلد شہرِ ہجر میں
جائیں
گے ملنے کو ہم بھی پاپیادہ اس برس
جب
بھی وہ گزریں سرِ شہرِ فراقِ آرزو
پھینک
دیجے راہ میں میرا برادہ اس برس
جب
دریچے فرش کے مضطرؔ! مقفّل ہو گئے
عرش
کے در ہو گئے ہم پر کشادہ اس برس
١٩٨٥ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں