اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ440
296۔ مجھ
کو اپنے غم کا اندازہ نہ تھا
مجھ
کو اپنے غم کا اندازہ نہ تھا
غم
کی دیواریں تھیں، دروازہ نہ تھا
یہ
صدا تھی میرے دل کے چور کی
گنبدِ
گردوں کا آوازہ نہ تھا
یہ
سزا تھی میرے حسنِ ذوق کی
عشق
کی لذّت کا خمیازہ نہ تھا
تھے
دریچے بند پھولوں کے ابھی
منتشر
خوشبو کا شیرازہ نہ تھا
جم
رہی تھی اس پہ دُھول ایّام کی
پھول
تھا لیکن تر و تازہ نہ تھا
بیربل
کیوں شہر کے گھبرا گئے
وہ
فقط مُلّا تھا، دوپیازہ نہ تھا
معجزہ
مضطرؔ! تھا یہ کردار کا
یہ
فقط گفتار کا غازہ نہ تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں