اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ378
256۔ وہ
اپنے حال پہ ہنستا تو ہو گا
وہ اپنے حال پہ ہنستا تو ہو گا
اسے فرقت کا دن ڈستا تو ہو گا
کوئی تو موڑ آئے گا سفر میں
کہیں رستے میں چورستہ تو ہو گا
بجھے گی پیاس پھر دشتِ نجف کی
لہو انسان کا سستا تو ہو گا
اگر آباد ہے کون و مکاں میں
وہ جسم و جاں میں بھی بستا تو ہو گا
اسے معلوم ہے ساری حقیقت
وہ ہنسنے والوں پہ ہنستا تو ہو گا
مناؤ خیر اب منزل کی مضطرؔ!
اگر منزل رہی رستہ تو ہو گا
جون،١٩٨٥ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں