اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ383۔384
259۔ دلِ
نادان پہ حیران نہ مضطرؔ! ہونا
دلِ نادان پہ حیران نہ مضطرؔ! ہونا
اس کی فطرت میں ہے مومن کبھی کافر ہونا
ہجر کی رات بھی آرام کا خوگر ہونا
باور آیا ہمیں مجبور کا پتھر ہونا
شہرِ بیدار کی راتوں کا سہارا لے کر
جاگنے والے! کبھی گھر سے نہ بے گھر
ہونا
موم کی طرح پگھل جاتے ہیں پاگل پتھر
وصل کے عہد میں ممکن نہیں آذر ہونا
تیری محفل سے ترے غم کے خزانے لے کر
ہم چلے جائیں تو ناراض نہ ہم پر ہونا
اب نہ الفاظ کے کژدم ہیں نہ آواز کے
سانپ
اب کسی جھوٹ کو آئے گا نہ اژدر ہونا
عمر بھر رہتے ہیں وہ لوگ مقدّر بن کر
جن کی قسمت میں ہو خاکِ رہِ دلبر ہونا
عشق کا ایک ہی چہرہ ہے فقط ایک ہی نام
اِس کو آتا نہیں رہزن کبھی رہبر ہونا
شہرِ جاناں کے ہے آداب کی لمبی تفصیل
مختصر یہ ہے کہ آپے سے نہ باہر ہونا
عشرتِ شامِ غریبانِ چمن ہے مضطرؔ!
بر سرِ چشم ستاروں کا میسر ہونا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں